جے ٹین سی ایک ملٹی رول سنگل انجن طیّارہ ہے جسے چین کی طیّارہ ساز کمپنی Chengdu Aircraft industry group نے تیّار کیا ہے۔ اس کی آزمائشی پرواز 1998ء میں کی گئی جب کہ 2005ء میں اسے چینی فضائیہ میں شامل کرلیا گیا۔ رفال کے مقابلے میں جے ٹین ایک ہلکا اور کم لاگت کا حامل طیّارہ ہے۔ یہ فورتھ جنریشن طیّارہ ہے۔
بھارتی رفال فرانسیسی ساختہ ہے جسے ڈیزل گروپ نے بنایا ہے۔ یہ ملٹی رول ففتھ جنریشن طیّارہ ہے اور ان کا موازنہ کرتے ہوئے جے ٹین سی کو دیکھا جائے تو اس کی لمبائی 10.03 میٹر، اس کے پَروں کا پھیلاؤ 9.25 میٹر، اونچائی 5.43 میٹر ہے۔ اس کا گراس ویٹ 14000 کلو گرام ہے۔
رفال کی بات کریں تو اس کی لمبائی 15.27 میٹر اور اونچائی 5.34 میٹر ہے۔ اس کے پروں کا پھیلاؤ 10.25 میٹر اور گراس ویٹ 9 ہزار 850 کلو گرام ہے۔ اس کا ٹیک آف ویٹ 24500 کلو گرام ہے۔
جے ٹین سی میں روسی ساختہ AL-3INF انجن لگا ہوا ہے جو اسے 12500 ibf تھرسٹ پاور مہیا کرتا ہے جب کہ جے ٹین سی میں WS-10 روسی انجن والے طیّارے ہیں، یہ نیوٹن کا تھرسٹ آفٹر برن طیّارے کو مہیا کرتا ہے۔
رفال کو (Two Sncema) M 88 انجن آفٹر برن 17000 ibf تھرسٹ پاور مہیا کرتا ہے، یعنی دونوں کے انجن طیّارے کو 34000 آئی بی ایف تھرسٹ پاور مہیّا کرتے ہیں۔ جے ٹین سی کی زیادہ سے زیادہ اسپیڈ 1.8 میک ہے، کامبیٹ رینج 1250 کلومیٹر اور سروس سیلنگ 56 ہزار فٹ ہے۔ رفال کی زیادہ سے زیادہ اسپیڈ 1.8 میک ہے۔
جے ٹین سی طیّارہ میں (KLT10 AESA) ریڈار لگا ہوا ہے جس کی رینج 250 کلو میٹر ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پا کستان ان طیاروں میں اپنے رعد میزائل بھی استعمال کرسکتا ہے جن کی رینج 600 کلو میٹر ہے۔ جے ٹین کا ٹرن ریٹ 30 ڈگری فی سکینڈ ہے جب کہ رول ریٹ 300 پلس ڈگری فی سکینڈ ہے۔
رفال طیّارے کا پے لوڈ 8000 کلو گرام ہے جب کہ جے ٹین کا پے لوڈ 6000 ہزار کلو گرام ہے۔ رفال طیارے کی رفتار 2223 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے اور جے ٹین طیّارے کی رفتار 2000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ تاہم رفال کا spectra avionics system طیارے کو زیادہ جدید بنا دیتا ہے۔ ایمبونیشن صلاحیت میں جے سی ٹین میں چینی ساختہ ریڈار سسٹم نصب ہے، چینی ساختہ لیزر گائیڈیڈ بم، 3PL-8 میزائل،P-11 اور P-12 میزائل، BBR لیزر گائیڈ میزائل جن کی رینج 100 سے 200 کلومیٹر ہے، اس میں A23 mm کی گن جب کہ C-80 سالڈ راکٹ، اینٹی شپ میزائل YJ-8k جب کہ PL-8 انفرا ریڈ شارٹ رینج میزائل اور ایئر ٹو ایئر میزائل بھی اس طیّارے میں نصب ہیں، اس کا ٹیک آف کرتے ہوئے وزن 19277 کلو گرام ہے، اس کے پروں میں (1770 گیلن) اضافی فیول ٹینک لگنے سے اس کی پرواز صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
دوسری جانب کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان نیوی کے بحری بیڑے میں جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی سے لیس پی این طغرل کلاس فریگیٹس شامل ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ جنگی جہاز خطّے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور بھارت کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے پاکستانی بحریہ کی صلاحیت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
تو کیا پاکستانی نیول آپریشنز کے لیے جے ٹین سی کا استعمال کیا جاسکتا ہے؟
جے ٹین سی میڈیم ویٹ فائٹر کومبیٹ ایئر کرافٹ ہے اور سنگل انجن طیّارہ ہے جو تمام موسمی حالات میں پرواز کرسکتا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق J-10 طیارہ میری ٹائم سیکیورٹی کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جے ٹین طیّارے جہاز کو تباہ کرنے والے میزائلوں سے لیس ہیں اور اس طرح یہ سمندروں کے محافظ ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب پاکستان بحیرۂ عرب میں اپنی نقل و حرکت کو بڑھا رہا ہے۔
پاکستانی فضائیہ اپنے میراج طیاروں کے بیڑے کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور چینی ساختہ جے ٹین لڑاکا طیّارے ممکنہ طور پر فضائیہ کے ساتھ ساتھ بحریہ کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ جے ٹین اے نے 2019ء میں یومِ پاکستان کے موقع پر پہلی بار پریڈ کا حصّہ بنے تھے۔ اس وقت چھے طیاروں کی فارمیشن کو چینی ہوا بازوں نے اڑایا تھا۔ سال 2019ء ہی سے کہا جارہا تھا کہ پاکستان جے ٹین طیّارے خریدے گا۔
جب یوکرین سے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کے لیے کہا جارہا تھا، اسی عرصے میں پاکستان پر بھی یہ پریشر تھا کہ وہ اپنا جوہری منصوبہ رول بیک کر دے، لیکن پاکستان اس پر کسی کی بات نہیں سنی اور ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کردیا تھا۔
آج جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے تو کوئی بھی نیٹو ملک سرحدوں کے دفاع کے لیے یوکرین کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا ہے اور صرف روس کے خلاف مذمتی بیانات، اس پر پابندیاں عائد کیے جانے اور یوکرینی عوام سے ہمدردی پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یوکرین اگر ایک جوہری طاقت ہوتا تو شاید روس کے لیے حملہ کرنا آسان نہ ہوتا اور اسے سوچنا پڑتا۔ پاکستان وہ ملک ہے جو عالمی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہوئے خطّے میں بڑی طاقتوں کے مفادات اور ان کی پالیسیوں کو بھی سمجھتا ہے۔ پاکستان امن اور ترقّی کے خواہاں ہے، جس کے لیے خطّے میں طاقت کا توازن قائم رکھنا ضروری ہے اور پاکستان اس طرف سے کبھی غافل نہیں رہا۔
23 مارچ کو جب وطنِ عزیز کی فضاؤں میں جے ٹین سی اڑان بھریں گے تو یہ ایک خاموش پیغام بھی ہوگا کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ کوئی کسی کی جنگ نہیں لڑتا، اپنی جنگ خود لڑنا پڑتی ہے اور یہ سبق ہم نے دنیا کی تاریخ سے سیکھا ہے۔