اسرائیل کے اشتعال انگیز رویے نے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کو ایک مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ایران پر صہیونی ریاست کا حملہ جو جمعے کی صبح سے شروع ہوا تھا، تادم تحریر اس کی فوجی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ اس تنازع میں پہلے سے ہی نازک صورت حال کا شکار خطے کی آگ کو مزید بھڑکانے اور عالمی معیشت کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ان حملوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور فوجی اہداف کے ساتھ رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ متاثرین میں ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف کے ساتھ ساتھ طاقتور پاسداران انقلاب کے سربراہ اور کئی سینئر سائنسدان بھی شامل ہیں۔ کئی ایرانی شہروں پر حملے کیے گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کو اہم ایرانی تنصیبات اور سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے گہری انٹیلی جنس اطلاعات تھی۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ تہران نے اسرائیل کی جارحیت کو ’اعلان جنگ‘ قرار دیا ہے۔
تل ابیب نے کہا ہے کہ اس نے ’اسرائیل کی بقا‘ کو لاحق خطرے کی وجہ سے ایران پر حملہ کیا۔ یہ حقائق کے منافی ہے۔ یہ اسرائیل ہی ہے جو ایران کو مسلسل اُکساتا رہا ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتی تنصیبات پر بمباری اور گزشتہ سال تہران میں حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اسرائیل کو نشانہ بنانے کی غرض سے کیے گئے دو الگ الگ ایرانی میزائل اور ڈرون حملے اس بات کا ثبوت ہیں۔
درحقیقت اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل دیگر ممالک پر حملے اور لوٹ مار کرکے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں غزہ میں قتل وغارت گری مچانے کے علاوہ اسرائیل نے شام، لبنان، یمن اور اب ایران پر فوجی حملے کیے ہیں۔ لہٰذا تل ابیب کی ’سیلف ڈیفنس‘ یعنی اپنے دفاع میں کی گئی کارروائی کا بہانہ اب شاید ہی معتبر رہا ہو۔ سچائی یہ ہے کہ اسرائیل کا رویہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
کئی ریاستوں بالخصوص مسلم بلاک کی جانب سے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ پاکستان کی قیادت اور پارلیمنٹ نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے اور ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
اس کے باوجود دیگر ممالک اس معاملے کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملوں کو ’بہترین‘ قرار دیا اور کہا کہ مزید حملے ہو سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے حیرت انگیز طور پر ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کو کہا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اپنے سر پر رکھی بندوق کی وجہ سے ایران مذاکرات کرے گا۔
ایرانی قیادت نے اس حملے کا انتقام لینے کا وعدہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ ایران، عراق کے ساتھ ہونے والی 8 سالہ وحشیانہ جنگ سے بھی گزر چکا ہے جبکہ وہ لانگ گیم کھیلنے میں ماہر ہیں۔ اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ضرورت ہو حملے جاری رہیں گے۔ اسرائیل کے اس مؤقف کو ایران ایک چیلنج کے طور پر لے سکتا ہے۔
دنیا یہاں ایک انتہائی خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اگر امریکا، اسرائیل کے ’دفاع‘ میں شامل ہوتا ہے تو معاملات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اجلاس کر رہی ہے۔ اگرچہ اس سے توقعات کم ہونی چاہئیں لیکن اس نئی جنگ کو روکنے کے لیے بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے۔